ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں، ظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں، جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشۂ شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گِرا
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں تِری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے، نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مِری بے سروسامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مِری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعدؔ جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment