روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں، ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اِک آدھ دکاں کھولتی ہے
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گَلے یار سے لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment