پِھرے گا تُو بھی یُونہی کُوبکُو ہماری طرح
دریدہ دامن و آشفتہ مُو، ہماری طرح
کبھی تو سنگ سے پھُوٹے گی آبجُو غم کی
کبھی تو ٹُوٹ کے روئے گا تُو ہماری طرح
پلٹ کے تجھ کو بھی آنا ہے اس طرف، لیکن
یہ کیا کہ اہلِ ہوس بھی سجائے پِھرتے ہیں
دلوں پہ داغ، جبیں پر لہُو، ہماری طرح
وہ لاکھ دشمنِ جاں ہو، مگر خدا نہ کرے
کہ اُس کا حال بھی ہو ہُو بہُو ہماری طرح
ہمیں فرازؔ! سزاوارِ سنگ کیوں ٹھہرے
کہ اور بھی تو ہیں دیوانہ خُو ہماری طرح
احمد فراز
No comments:
Post a Comment