یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے
ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر، کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے
ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
بجا کہ دردسری ہے یہ زندگی کرنا
مگر، یہ بارِ امانت کوئی اُتار تو دے
تِرا ہی ذکر کریں، بس تجھی کو یاد کریں
یہ فرصتیں بھی کبھی فکرِ روزگار تو دے
تِرے کرم بھی مجھے یاد ہیں، مگر مِرا دل
جو قرض اہلِ زمانہ کے ہیں، اُتار تو دے
فلک سے ہم بھی کریں ظلمِ ناروا کے گِلے
پہ سانس لینے کی مہلت ستم شعار تو دے
فرازؔ! جاں سے گزرنا تو کوئی بات نہیں
مگر اب اسکی اجازت بھی چشمِ یار تو دے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment