ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہمنفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد! پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
اے ضعف! تڑپتے جی بھر کر، تُو نے مری مُشکیں کَس دی ہیں
ہو بند، اور آتش پر ہو چڑھا، سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم
ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں، پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے
اب دردِ جدائی سے ان کے، اے آہ بہت بے تاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ! قدر کرو نایاب نہ ہوں، کمیاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھولوں نے، اے شادؔ! یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو، ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment