Thursday, 13 December 2012

شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے، کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو، اور دَم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنانِ صدا گئے
پھیلی وہ بُو جو ہم میں نہاں مثلِ غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گُل کھلا گئے
اے آبِ اشک آتشِ عنصر ہے دیکھنا
جی ہی گیا اگر نفسِ شعلہ زا گئے
مجلس میں اس نے پان دیا اپنے ہاتھ سے
اغیار، سبز بخت تھے، ہم زہر کھا گئے
اُٹھا نہ ضعف سے گُلِ داغِ جنوں کا بوجھ
قاروں کی طرح ہم بھی زمیں میں سما گئے
غیروں سے ہو وہ پردہ نشیں کیوں نہ بے حجاب
دم ہائے بے اثر مرے پردہ اُٹھا گئے
تھی بد گمانی اب نہیں کیا عشقِ حور کی
جو آ کے مرتے دَم مجھے صورت دکھا گئے
تابندہ و جوان تو بختِ رقیب تھے
ہم تیرہ روز کیوں غمِ ہجراں کو بھا گئے
بیزار زندگانی کا جینا محال تھا
وہ بھی ہماری نعش کو ٹھوکر لگا گئے
واعظ کے ذکر مہرِ قیامت کو کیا کہوں
عالم شبِ وصال کے آنکھوں میں چھا گئے
جس وقت اس دیار سے اغیار بوالہوس
بدخوئیوں سے یار کی ہو کر خفا گئے
دنیا ہی سے گیا میں جوں ہی ناز سے کہا
اب بھی گمان بد نہ گئے تیرے، یا گئے
اے مومنؔ آپ کب سے ہوئے بندۂ بُتاں
بارے ہمارے دِین میں حضرت بھی آ گئے

مومن خان مومن

No comments:

Post a Comment