طبیعت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے
دل کم حوصلہ کاغذ کی گیلی کشتیوں پر ہے
گذشتہ موسموں میں بجھ گئے ہیں رنگ پھولوں کے
دریچہ اب بھی میرا روشنی کے زاویوں پر ہے
ہزاروں آبنوسی جنگلوں کا حسن کیا معنی
ہمیں جب سانس لینا کیمیائی تجربوں پر ہے
کڑھا ہے میری اجرک پر بلوچی کام شیشے کا
کسی کے عکس کی قوس قزح سب آئینوں پر ہے
مِرے آنگن میں اک ننھی گلہری کا بسیرا ہے
بہت معصوم سا اک نقش میری کیاریوں پر ہے
میں اس پر اپنے اندر کی حمیرا وار آتی ہوں
مگر وہ بے یقینی میں ابھی پہلی حدوں پر ہے
حمیرا رحمان
No comments:
Post a Comment