قربتوں کے سارے لمحے دوریوں میں کھو گئے
خواب کچھ آنکھوں میں لیکن جاتے جاتے بو گئے
یاد جب آئی تِری تو منتظر پہروں رہے
اپنی تنہائی سے آخر پھر لپٹ کر سو گئے
عہدِ طفلی! نوجوانی کھو گئی کس موڑ پر
حادثے ہونے تھے جتنے وہ تو آخر ہو گئے
اس طرف تھا کوئے جاناں، اس طرف اس کا تھا در
توڑ کر ناطہ سبھوں سے آپ کس کے ہو گئے
لوٹ کر آئے نہ پھر، جانے تھا کیسا وہ سفر
بزمِ ہستی چھوڑ کر، آصف یہاں سے جو گئے
آصف دسنوی
No comments:
Post a Comment