اسے مجھ سے محبت ہے نہیں ہے کیا پتہ کیا ہے
خدایا! پھٹ رہا ہے سر مِرا یہ سلسلہ کیا ہے؟
میں اکثر سوچتی رہتی تھی آخر مفلسی کیا ہے
گنوایا اُس کو تو آخر سمجھ میں آ گیا کیا ہے
مجھے محفل میں ہنسنا ہے کہ تنہائی میں رونا ہے
مریضِ ہجر کی مولا بتا تُو ہی دوا کیا ہے؟
ہے ماتم آج کیوں برپا گلستاں میں، ارے یارو
کوئی جا کر خبر لو پھول کو آخر ہُوا کیا ہے
چلی جاؤں گی سب کچھ چھوڑ کر اک دن، محبت بھی
یہ دل، یہ روح سب تیرا ہے میری جاں، مِرا کیا ہے
لگا ڈالی تھی میں نے آگ تیری ہر نشانی کو
مگر تصویر بچ نکلی تِری، تو پھر جلا کیا ہے
بلا کے ہم بہادر تھے، مگر میدانِ الفت میں
محبت ہار کے جانا کہ آخر حوصلہ کیا ہے
اندھیری بزم میں، آنے سے ان کے روشنی پھوٹی
صدا گونجی، اے شمس الرب، تِرے آگے دِیا کیا ہے
لاریب کاظمی
No comments:
Post a Comment