زباں کا پاس ہے تو قول سب نبھانے ہیں
اگر مُکرنے پہ آؤں تو سو بہانے ہیں
تیر نگاہ کے رستے سبھی نئے ہیں مگر
ہمارے طور طریقے سبھی پرائے ہیں
نہ راس آئی ہمیں آپ کی ادا کوئی
ستم ہے اس پہ کہ ہم آپ کے دِوانے ہیں
یہ کیا کہ حوصلہ تم نے ابھی سے ہار دیا
ابھی تو وقت نے کچھ اور گُل کھلانے ہیں
سیاہ رات کی تاریکیاں بجا، لیکن
نویلی صبح کے منظر عجب سہانے ہیں
ہر اک سمت بلاؤں کا اک ہجوم سا ہے
تمام حوصلے اب دل کو آزمانے ہیں
نیا تو کچھ بھی نہیں تیری داستاں میں چاند
وہی ہیں درد کے قصے وہی فسانے ہیں
مہندر پرتاب چاند
No comments:
Post a Comment