Friday, 28 April 2023

یہ شہر نارسائی ہے یہاں دستور گویائی نہیں

 یہ شہر نارسائی ہے 

یہاں دستور گویائی نہیں ہے 

یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے 

یہاں پر جب کبھی آؤ 

خموشی کا ارادہ باندھ کر آؤ 

یہاں گونگے گھروں کی 

ساری دیواروں میں 

آوازوں کے جنگل جاگتے ہیں 

یہاں آنکھیں نہیں ہوتیں 

یہاں دل بھی نہیں ہوتے

یہاں بس ایک ہی چہرہ ہے 

باقی سارے چہرے اس کی نقلیں ہیں 

سبھی چہروں کے نقشے ایک جیسے ہیں 

وہی رستے، وہی گلیاں 

وہی صدیوں کا چکر ایک جیسا ہے 

ازل سے دائرے کا اک سفر 

اور پھر فنا کا مختصر لمحہ 

یہی میری کہانی ہے 

یہی سب کی کہانی ہے 

یہ شہر نارسائی ہے 


بشریٰ اعجاز

No comments:

Post a Comment