Tuesday, 25 April 2023

جنم لیا ہے جو انساں فروش نگری میں

 جنم لیا ہے جو انساں فروش نگری میں

سکُوت چھایا ہؤا ہے خموش نگری میں

جو منہ کی کھا کے پلٹتا ہے اور بستی سے

نکالتا ہے وہ سب اپنا جوش نگری میں

اگرچہ چہرے سے یہ سخت گیر لگتے ہیں

سبھی ہیں دوست صِفت برف پوش نگری میں

تمہارے شہر کے شر شور کا اثر ہی نہِیں

کہ چھوڑ آیا ہوں میں چشم و گوش نگری میں

پڑی ہے سب کو یہاں اپنا سر چُھپانے کی

کوئی تو مجھ سا دِکھے سر فروش نگری میں

امیرِ شہر نے صرفِ نظر پِسر سے کیا

غریبِ شہر کا نِکلا ہے دوش نگری میں

اُگا رہے ہیں یہاں فصل ظُلمتوں کی جو

سُنائی دی ہے نوائے سروش نگری میں

بہار آئی ہے پِیلی خزاں رُتوں کے بعد

سو پایا جاتا ہے جوش و خروش نگری میں

رشید نام کے، سنتے ہیں کوئی شاعر ہیں

نہِیں ہے ان سا کوئی شبد کوش نگری میں


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment