Saturday, 22 April 2023

گر قوت مومن ہے تو شمشیر و سناں سے

 گر قوتِ مؤمن ہے تو شمشیر و سناں سے

مقصود نہیں اس کو کوئی سُود و زیاں سے

جاں جس کی امانت ہے اسے دینی پڑے گی

اور جرأتِ کردار تو ظاہر ہے قراں سے

ہے نعرۂ توحید تِرا اللہ اکبر

ظاہر ہے تِرا جوش تو واعظ کے بیاں سے

تُو جرأت و ناموسِ خدائی کا ہے مظہر

تُو شیرِ خدا سیفِ خدا رب کے بیاں سے

میدانِ حرب مؤمنِ جانباز بچھائے

ٹکرایا اگر کوئی تُو اک کوہِ گراں سے

تعمیرِ خلافت تِری توحید کے دم سے

تقدیرِ الٰہی ہے تُو مؤمن کی لساں سے

ہر حجر و شجر تیری ہی تائید کرے گا

اعلیٰ ہے تُو ہر سوچ تُو ہر ایک گماں سے

سب کوہ و بیاباں تِرے دیدار کے طالب

اور نعرہ جگر پاش تِرا نکلے نہاں سے

افلاک پہ ہے تذکرہ گردوں بھی فدا ہے

ناوک ہے تو جو نکلا ہو دھرتی کی کماں سے

محکوم کی آہوں نے پکارا ہے تجھی کو

گریے کا تدارک تِرا حاصل ہے جناں سے

حوروں کی طلب کا تُو ہی منبع ہے ازل سے

منہ موڑ کے آیا تُو اگر ماہ رخاں سے

شاعر کا ہر اک شعر بھی ذاتی نہیں ہوتا

کاشف کو تو مکشوف ہے یہ آہ و فغاں سے

آتے ہیں مضامین بھی توحید پہ مبنی

جو چیرتے آ جاتے ہیں گردوں کے دُخاں سے

مؤمن کی تو پرواز مقیّد نہیں ہوتی

مؤمن نہیں پابند کسی کون و مکاں سے

رہتا ہے جہاں بینی جہاں گردی میں ہر دم

مخلوق ہے علیں کی کب لاگ جہاں سے

احکامِ خداوندی میں چوکس رہے ہر دم

ہوتا نہیں کچھ کام ہی دہشت کے سماں سے

میری تو نگہ ایک ہی نقطے پہ ہے مرکوز

توحید کے گلزار سے لالہ کے نشاں سے

وہ لالہ کہ ہے خونِ جگر اُبلے ہے ہر دم

اے حلقۂ گردوں تو اسے لائے کہاں سے

دشمن ہے خدا کا ہی تِرا ربی و مولا

آتے ہیں شرارت کے ہی پیغام جہاں سے

لاکھوں ہی گلِ لالہ کھلے جاتے ہیں دل میں

قاری تُو تڑپ جائے گا اس نوحہ کناں سے

رمزی کو عداوت ہے تُو شمشیر کا تارک

یہ قول و عمل اور تِرے واضح ہے بیاں سے


معین لہوری رمزی

No comments:

Post a Comment