Saturday, 22 April 2023

آؤ ہم سب مل کے بیٹھیں پیار کی باتیں کریں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


آؤ ہم سب مل کے بیٹھیں پیار کی باتیں کریں

کچھ عرب میں پریم کے اوتار کی باتیں کریں

فخر آدم احمدؐ مختارﷺ کی باتیں کریں

دو جہاں کے سرور و سردار کی باتیں کریں

پریم کی گنگا بہائی جس نے ریگستان میں

روح تازه پھونک دی مٹتے ہوئے ایمان میں

وہ صداقت کا علمبردار، وحدت کا خطیب

ظاہر و باطن کے سب انوار تھے جس کے قریب

انبیاء پر برتری کا تھا شرف جس کو نصیب

وہ پاک و برتر نے کہا جس کو حبیبﷺ

دم قدم سے جس کے حق کا بول بالا ہو گیا

اور وحدت ہر طرف پھیلا اجالا ہو گیا

تھی رسولؐ پاک سے پہلے جہالت چار سُو

بھائی بھائی میں بھی تھی رسم عداوت چار سو

تھا عرب کی سرزمین پر دور ظلمت چار سو

معجزہ کس کا تھا جو پھیلی اخوت چار سو

ہر طرف آنے لگیں اللہ اکبر کی صدا

حمد خالق کی صدا، نعت پیمبر کی صدا

درد تو بے انتہا تھے کوئی چارہ گر نہ تھا

دائروں پر تھی نظر دل ایک مرکز پر نہ تھا

بت کدہ تھا خانۂ کعبہ خدا کا گھر نہ تھا

تھے ہزاروں خوف، خوف داور محشر نہ تھا

آپﷺ کو اللہ نے بھیجا ہدایت کے لیے

ہو گیا سامان امت کی شفاعت کے لیے

جانور کی طرح سمجھے جاتے تھے پہلے غلام

باتوں باتوں میں ہوا کرتی تھیں تیغیں بے نیام

لڑکیوں کا قتل کر دینا بھی تھی اک رسم عام

خاندانوں میں لیا جاتا تھا صدیوں انتقام

شاعری تھی ہوش وحشت کو بڑھانے کے لیے

درس کوئی بھی نہ تھا لیکن زمانے کے لیے

خاندانوں کے الگ تھے اپنے اپنے دیوتا

ان سے بھی اکثر ہوا کرتا تھا ساماں جنگ کا

تھے خدا کے گھر میں بھی بت اور کا تو ذکر کیا

کان میں آتی نہ تھی، اللہ اکبر کی صدا

دفعتاً گونجا زمانہ نعرۂ توحید سے

نا امیدی کفر ٹھہری، دل بھرے امید سے

آرز و بر آئی ابراہیمؑ و اسمعیلؑ کی

از سر نو دین حق کی آپؐ نے تشکیل کی

بت ہٹائے حکم حق کی آپؐ نے تعمیل کی

آخری پیغام لائے دین کی تکمیل کی

جس نے ایذا دی کیے اس پر بھی احساں آپؐ نے

رفتہ رفتہ کر لیا اس کو مسلماں آپؐ نے

آپؐ کا دل تھا کہ تھا آئینۂ صدق و صفا

انتہائے نور اقدس تھی کہ سایہ نور کا

اے شفیع روز محشر، اے حبیب کبریا

اس جہان آب و گل میں پیکر نور خدا

جانتا ہوں میں کہ ادنیٰ ہوں یہ کاروں میں ہوں

آپؐ کی چشم عنایت کے طلبگاروں میں ہوں


ادیب لکھنوی

گرسرن لال

No comments:

Post a Comment