دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے
ہاں مگر دیکھے عجب انداز اس طوفان کے
اپنی مجبوری کے آئینے میں پہچانا تجھے
یوں تو کتنے ہی وسیلے تھے تِری پہچان کے
زخم خوں آلود ہیں آنسو دھواں دیتے ہوئے
یہ سہانے سے نمونے ہیں تِرے احسان کے
درد و غم کے تپتے صحرا کی کڑکتی دھوپ میں
سو گیا ہوں میں تِری یادوں کی چادر تان کے
دیکھیے کب تک حقیقت تک رسائی ہو زہیر
چاند تاروں تک تو جا پہنچے قدم انسان کے
زہیر کنجاہی
No comments:
Post a Comment