چلتے رہے تو ذات کے کھنڈر بھی آئیں گے
رستے میں ریگزار، سمندر بھی آئیں گے
آئیں گے بادشہ بھی ملاقات کو تِری
نذر و نیاز دینے قلندر بھی آئیں گے
دھونی رما کے بیٹھ کسی دشتِ نور میں
جوگی بھی سادھو، سنت، سکندر بھی آئیں گے
کھو جا اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں تو
ہو کے اداس تیرے ستمگر بھی آئیں گے
قلبِ حزیں کو گہرا سمندر بنائیے
گوہر تلاش کرنے شناور بھی آئیں گے
محمود بن کے عقل کو ایاز کیجیۓ
قدموں میں سومنات کے مندر بھی آئیں گے
عالی! کلام کہنے کو اپنی زمین دیکھ
لعل و گہر غزل کے اساور بھی آئیں گے
شائستہ کنول عالی
No comments:
Post a Comment