توڑ دیا زنجیروں کو، اور صحرا صحرا دیکھ لیا
وحشی نے جب اک دن اپنے خواب میں رستہ دیکھ لیا
ایک دریچہ میرے دکھ سکھ بانٹنے کو آ پہنچا ہے
دیواروں کے بیچ جو مجھ کو سہما سہما دیکھ لیا
تجھ کو دیکھا ہے تو دیکھا ایک جہان نیا میں نے
لیکن اب تک سوچ رہا ہوں، جانے کیا کیا دیکھ لیا
پنچھی کے دکھ درد سبھی تو سنتا رہتا ہے پنجرہ
گھر والے تو جی کے قیدی جب جی چاہا دیکھ لیا
پت جھڑ ہو یا پھول کھلے ہوں سارے موسم اچھے ہیں
یارو! خوش بختی ہے اپنی، بادل برسا دیکھ لیا
احسن علی
علی احسن
No comments:
Post a Comment