دریچہ
دریچہ وا کیا ہم نے
تو جھونکا اولیں اٹھکیلیاں کرتا ہمیں پہنچا
بہت پُر شوق خوشبو یافتہ تھا
تبسم ریز پُروا تھی
کہ جس کے پنکھ پر ٹھہرا ہوا حیرت ادب پارہ
محبت کے کسی تازہ فلک کی آنکھ میں
جھلکا ہوا تارا لگا ہم کو
چمن کے سب مناظر میں ہویدا تھا
محبت پاش تحریریں حقیقت کے قرینِ خاص سے آگے
کہ جو تعبیر کی خاطر
ہزاروں خواب تکتی تھیں
دریچہ ان پہ نازاں تھا
کبھی یوں بھی لگا ہم کو
کہ پُروا بے خیالی میں
دریچے کے تبسم کو رُلا آئی
کسی بادِ خزاں کے کان بھرنے پر
دریچے کو جلا آئی
مگر دلگیر ہو کر بھی
دریچہ مسکرا دیتا
ہوا کو گدگدا دیتا
دریچہ جانتا ہے لفظ ہی زندہ حقیقت ہیں
صداقت بار لفظوں کو
کہیں بھی جھوٹ کی آندھی فنا کرنے سے قاصر ہے
ہر اک فتح سے عاجز ہے
یہ میرے شہر کے ادبی جواہر
نگاہوں میں انوکھی ضوفشانی
لیے چہروں پہ اک تازہ کہانی
مگر احسان تاروں کا کہاں ہے
جنہیں اللہ نے ذہنِ رسا کے اک وسیلے سے
بہت زیادہ نوازا ہے
قلم ان کا ستارا ہے
دعائیں مانگتے اہلِ دریچہ
خدا کردہ ادب مقصد بریں ہو
دریچہ اپنے گھر کا آفریں ہو
فرخندہ شمیم
No comments:
Post a Comment