Saturday, 22 April 2023

کس لیے کرتا رہوں خون کو پانی میں بھی

 کس لیے کرتا رہوں خون کو پانی میں بھی

زندگی فاحشہ کب ہے نہ ہوں زانی میں بھی

ہم سے لغزش جو ہوئی ہے تو کریں توبہ بھی

تم بھی حوا سے ہو، آدم سے ہوں جانی میں بھی

رکھ کے ہر جُرم مِرے سر وہ سُبکدوش ہوا

اس کو لکھ جاؤں یہ دُشنام جوانی میں بھی

وہ ہے اک طِفل، کھلونوں سے بہل جائے گا

اس کے ہاتھوں میں تھما دوں کوئی رانی میں بھی

جو بھی ہم لکھیں وہ کیونکر ہو ادب کا شہکار

تم نہ غالب ہو کوئی اور نہ ہوں بانی میں بھی

سب کو جانا ہے تو جائیں گے ہی، ماتم کب تک

صابر! ہو جاؤں گا کل خُلد مکانی میں بھی


صابر ادیب

No comments:

Post a Comment