کس لیے کرتا رہوں خون کو پانی میں بھی
زندگی فاحشہ کب ہے نہ ہوں زانی میں بھی
ہم سے لغزش جو ہوئی ہے تو کریں توبہ بھی
تم بھی حوا سے ہو، آدم سے ہوں جانی میں بھی
رکھ کے ہر جُرم مِرے سر وہ سُبکدوش ہوا
اس کو لکھ جاؤں یہ دُشنام جوانی میں بھی
وہ ہے اک طِفل، کھلونوں سے بہل جائے گا
اس کے ہاتھوں میں تھما دوں کوئی رانی میں بھی
جو بھی ہم لکھیں وہ کیونکر ہو ادب کا شہکار
تم نہ غالب ہو کوئی اور نہ ہوں بانی میں بھی
سب کو جانا ہے تو جائیں گے ہی، ماتم کب تک
صابر! ہو جاؤں گا کل خُلد مکانی میں بھی
صابر ادیب
No comments:
Post a Comment