نہیں معلوم پائیں گے سکوں اہلِ جہاں کب تک
خدا جانے رہے گا اس زمیں پر آسماں کب تک
یہ افسانہ ابھی تو زیرِ عنوانِ کرم بھی ہے
سنائے جاؤں میں ان کے ستم کی داستاں کب تک
قفس میں تو مجھے جب تک بھی رہنا ہو مگر یا رب
تصور میں مِرے جلتا رہے گا آشیاں کب تک
غضب ہے ٹھیس لگنا عشق کی خوددار فطرت کو
بس اے چشمِ کرم اب التفاتِ رائیگاں کب تک
نہیں جب پاس وعدہ تو مُکر بھی جاؤ گے اک دن
بدل جائے گا جب دل تو نہ بدلے گی زباں کب تک
کبھی امید کی نظروں سے دیکھ اپنی طرف بسمل
نگاہِ یاس سے دیکھے گا سُوئے آسماں کب تک
بسمل سعیدی
No comments:
Post a Comment