احباب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں
آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا
آؤ مل لو عید، یہ موقع نہیں تکرار کا
رُخ پہ گیسُو ڈال کر کہنا بُتِ عیار کا
وقت دونوں مل گئے منہ کھول دو بیمار کا
جاں کنی کا وقت ہے پھِرتی نہ دیکھو پُتلیاں
تم ذرا ہٹ جاؤ، دم نکلے گا اب بیمار کا
حرج ہی کیا ہے الگ بیٹھا ہوں محفل میں خموش
تم سمجھ لینا کہ یہ بھی نقش ہے دیوار کا
اس قفس والے کی قسمت قابل افسوس ہے
چُھوٹ کر جو بُھول جائے راستہ گُلزار کا
بات رہ جائے گی دیکھ آؤ گھڑی بھر کے لیے
لوگ کہتے ہیں کے حال اچھا نہیں بیمار کا
کس طرح گُزری شبِ فُرقت قمر سے یہ نہ پوچھ
رات بھر ڈھونڈا ہے تارہ صبح کے آثار کا
قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment