کہاں کا عشق کہاں کی محبتیں مرشد
تمام عمر ہی جھیلی ہیں وحشتیں مرشد
ہم ایسے لوگ کہاں راس آ سکے محبت کو
کہ جن پہ بار ہیں اپنی طبیعتیں مرشد
سروں کی خاک ہمیں کھینچ لائی ہے ورنہ
کہاں کا ہِجر کہاں کی یہ ہِجرتیں مرشد
وہ کون لوگ تھے گمنامیوں سے نالاں تھے
ہمیں تو مار گئی ہیں یہ شہرتیں مرشد
کسی کو ٹوٹ کے چاہیں کسی کو یاد کریں
ہمارے پاس کہاں اتنی فرصتیں مرشد
کوئی تو ہوتا جو چُنتا وجود کے ریزے
تمام عمر رہی ہیں یہ حسرتیں مرشد
کوئی وظیفہ کوئی وِرد کوئی اِسم پڑھیں
کہ ختم ہونے لگی ہیں اذیتیں مرشد
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment