Thursday, 13 April 2023

نہ ہے بت کدے کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے

 نہ ہے ٭بتکدے کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے 

جہاں لُٹ گیا ہے سکونِ دل، اسی رہگزر کی تلاش ہے 

نہ ہے ٭بتکدہ کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے 

جہاں لٹ گیا ہے سکون دل اسی رہگزر کی تلاش ہے 

اسے پا سکے کہ نہ پا سکے، یہ نظر نظر کی تلاش ہے

جو کسی بھی راہ میں کھو گئی مجھے اس نظر کی تلاش ہے

میرے ذوقِ سجدۂ بندگی کو عطا ہوئی ہے وہ بے خودی

تیرے سنگِ در پہ پہنچ کے بھی تیرے سنگِ در کی تلاش ہے

تُو حرم میں جس کو ہے ڈھونڈتا مجھے بتکدے میں وہ مل گیا

تجھے کیا ملال ہے زاہدا! یہ نظر نظر کی تلاش ہے

اے طبیب! ہٹ جا پرے ذرا میں مریض عشق ہوں لا دوا 

مجھے جس نے درد عطا کیا، اسی چارہ گر کی تلاش ہے

جو غم حیات کو لوٹ لے اسی راہزن کی ہے جستجو 

جو چراغ منزل عشق ہو اسی راہبر کی تلاش ہے 

مجھے سب قبول فلک مگر غمِ دوست مجھ سے طلب نہ کر

اسے کیسے دل سے جدا کروں، میری عمر بھر کی تلاش ہے

نہ نگاہِ لطف کی آبرو، نہ تیرے کرم کی ہے جستجو

تیرے نقشِ پا کی قسم مجھے تیری رہگزر کی تلاش ہے

تیرے غم کو دل سے بھلا سکوں مگر اس خیال کو کیا کروں

کہ یہی متاعِ حیات ہے، یہی عمر بھر کی تلاش ہے

یہ ہے وہ مقام کہ جس جگہ یہ امیر صابری کھو گیا 

نہ رہی ہے جلووں کی آرزو نہ ہی جلوہ گر کی تلاش ہے 


امیر بخش صابری

٭ غزل کے مطلع کے پہلے مصرع میں کہیں بتکدہ اور کہیں بت کدے کا لفظ ملا ہے۔

اس لیے جب تک اصل مسودہ/کتاب سے استفادہ نہ کر لوں اسے دونوں شکلوں میں رہنے دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment