سفر کی دھول کو چہرے سے صاف کرتا رہا
میں اس گلی کا مسلسل طواف کرتا رہا
یہ میری آنکھ کی مسجد ہے پاؤں دھیان سے رکھ
کہ اس میں خواب کوئی اعتکاف کرتا رہا
میں خود سے پیش بھی آیا تو انتہا کر دی
مجھ ایسے شخص کو بھی وہ معاف کرتا رہا
اور اب کھلا کہ وہ کعبہ نہیں تِرا گھر تھا
تمام عمر میں جس کا طواف کرتا رہا
میں لو میں لو ہوں الاؤ میں ہوں الاؤ ندیم
سو ہر چراغ مِرا اعتراف کرتا رہا
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment