Thursday 13 April 2023

سفر کی دھول کو چہرے سے صاف کرتا رہا

 سفر کی دھول کو چہرے سے صاف کرتا رہا 

میں اس گلی کا مسلسل طواف کرتا رہا 

یہ میری آنکھ کی مسجد ہے پاؤں دھیان سے رکھ 

کہ اس میں خواب کوئی اعتکاف کرتا رہا 

میں خود سے پیش بھی آیا تو انتہا کر دی 

مجھ ایسے شخص کو بھی وہ معاف کرتا رہا 

اور اب کھلا کہ وہ کعبہ نہیں تِرا گھر تھا 

تمام عمر میں جس کا طواف کرتا رہا 

میں لو میں لو ہوں الاؤ میں ہوں الاؤ ندیم

سو ہر چراغ مِرا اعتراف کرتا رہا


ندیم بھابھہ

No comments:

Post a Comment