کل جو میں نے سوچا تھا
آج بھی نہیں ہو گا
کچھ پرانی غزلیں جو
خستہ ڈائری میں ہیں
ڈھیر سارے وہ کاغذ
جن پہ کچھ خیالوں کو
چلتے چلتے باندھا اور
جا بجا کتابوں میں
اور کچھ درازوں میں
میں نے ٹھونس رکھا ہے
کانٹ چھانٹ کرنی تھی
وقت ہی نہیں ملتا
سوچ کی منڈیروں پر
خوبرو خیالوں کے
کاٹتے سوالوں کے
غول آ نکلتے ہیں
میرا دل لبھاتے ہیں
رک کے چہچہاتے ہیں
اور اڑتے جاتے ہیں
ان سے کہنے سننے کا
اور میٹھے لفظوں سے
کوئی جال بننے کا
وقت ہی نہیں ملتا
راشد تاثیر
No comments:
Post a Comment