نا دیکھا ہو گا جو تم نے وہ تھم کر دیکھتے جاؤ
لبوں تک آ چکی ہے جانِ مضطر دیکھتے جاؤ
جوانی کی اداؤں کا زمانہ آتا جاتا ہے
قیامت ڈھائے گی شانِ ستمگر دیکھتے جاؤ
غضب تھا صبحِ وصل اس کا یہ مجھ سے کہنا
ہماری نیم باز آنکھوں کے جوہر دیکھتے جاؤ
قیامت میں قیامت ہے تمہارا یوں چلے آنا
بپا محشر میں ہے اک اور محشر دیکھتے جاؤ
تمہارے ظلم سے وابستہ ہے اک آرزو میری
جہاں تک ہو سکے تم سے پلٹ کر دیکھتے جاؤ
نہ آنے پائے اے عالم! زبان پر شکوۂ قسمت
دکھاتا جائے جو تم کو مقدر، دیکھتے جاؤ
عالم لکھنوی
No comments:
Post a Comment