راستوں کی تھکن اُٹھاتے ہوئے
دشت پہنچا ہوں گیت گاتے ہوئے
میں نے زیتون کے درختوں میں
چاند دیکھا ہے مسکراتے ہوئے
کھول دیتا ہوں نیند میں بانہیں
خواب کا راستہ بناتے ہوئے
اس شفق زاد کا خیال آیا
طاقچے میں دیا جلاتے ہوئے
توڑ دیتا تھا خامشی شب کی
اک دیا داستاں سناتے ہوئے
غم کی تشہیر تو نہیں ہے سعید
سوچیے قہقہہ لگاتے ہوئے
مبشر سعید
No comments:
Post a Comment