Sunday, 16 April 2023

سبز رتوں میں پل بھر جو مہمان رہا

 سبز رتوں میں پل بھر جو مہمان رہا

ہر موسم میں اس کا ہی کیوں دھیان رہا

آنے والی نیند بھی رستہ بھول گئی

یاد کا جنگل حد درجہ گنجان رہا

شب کے رخ سے ایک ذرا آنچل سر کا

اور اجالا دن بھر کی پہچان رہا

تعبیروں کے پیلے پتے کہتے ہیں

خواب کا موسم بھی کب تک مہمان رہا

وقتِ رخصت اپنا آپ وہیں بھولی

اچھا ہے پھر ملنے کا امکان رہا

عنبر دل پر بوجھ بنا سودائے غم

ایک خوشی کی خاطر دل ہلکان رہا


عنبرین حسیب عنبر

No comments:

Post a Comment