سبز رتوں میں پل بھر جو مہمان رہا
ہر موسم میں اس کا ہی کیوں دھیان رہا
آنے والی نیند بھی رستہ بھول گئی
یاد کا جنگل حد درجہ گنجان رہا
شب کے رخ سے ایک ذرا آنچل سر کا
اور اجالا دن بھر کی پہچان رہا
تعبیروں کے پیلے پتے کہتے ہیں
خواب کا موسم بھی کب تک مہمان رہا
وقتِ رخصت اپنا آپ وہیں بھولی
اچھا ہے پھر ملنے کا امکان رہا
عنبر دل پر بوجھ بنا سودائے غم
ایک خوشی کی خاطر دل ہلکان رہا
عنبرین حسیب عنبر
No comments:
Post a Comment