تمہاری شرط محبت کبھی وفا نہ ہوئی
یہ کیا ہوئی تمہیں کہہ دو اگر جفا نہ ہوئی
قدم قدم پہ قدم لڑکھڑائے جاتے تھے
تمام عمر بھی طے منزل وفا نہ ہوئی
تمہیں کہو تمہیں ناآشنا کہیں نہ کہیں
کہ آشنا سے ادا رسم آشنا نہ ہوئی
تِری ادا کی قسم ہے تِری ادا کے سوا
پسند اور کسی کی ہمیں ادا نہ ہوئی
ہمیں کو دیکھ کے خنجر نکالتے تھے آپ
ہمارے بعد تو یہ رسم پھر ادا نہ ہوئی
خدا نے رکھ لیا ناز و نیاز کا پردہ
کہ روز حشر مِری ان کی برملا نہ ہوئی
مبارک عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment