Monday 17 April 2023

تمہاری شرط محبت کبھی وفا نہ ہوئی

 تمہاری شرط محبت کبھی وفا نہ ہوئی

یہ کیا ہوئی تمہیں کہہ دو اگر جفا نہ ہوئی

قدم قدم پہ قدم لڑکھڑائے جاتے تھے

تمام عمر بھی طے منزل وفا نہ ہوئی

تمہیں کہو تمہیں ناآشنا کہیں نہ کہیں

کہ آشنا سے ادا رسم آشنا نہ ہوئی

تِری ادا کی قسم ہے تِری ادا کے سوا

پسند اور کسی کی ہمیں ادا نہ ہوئی

ہمیں کو دیکھ کے خنجر نکالتے تھے آپ

ہمارے بعد تو یہ رسم پھر ادا نہ ہوئی

خدا نے رکھ لیا ناز و نیاز کا پردہ

کہ روز حشر مِری ان کی برملا نہ ہوئی


مبارک عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment