Monday 17 April 2023

کارواں چلنے کو تیار ہے ایسا بھی نہیں

کارواں چلنے کو تیار ہے، ایسا بھی نہیں

راستے میں کوئی دیوار ہے، ایسا بھی نہیں

پورے قصے میں کہیں بھی نظر آیا نہیں یہ

عشق بھولا ہوا کردار ہے، ایسا بھی نہیں

ریل گاڑی سے میں ٹکراؤں گا ناکامی پر

اتنا اونچا مِرا معیار ہے، ایسا بھی نہیں

اس کی جانب ذرا دیکھوں تو میں ڈر جاتا ہوں

پاس اس کے کوئی تلوار ہے، ایسا بھی نہیں

کوئی موسم ابھی ہجرت کا نہ وصلت کا ہے

میرا ہونا یہاں بے کار ہے، ایسا بھی نہیں

گھر کو جانے کا مِرا وقت ہوا جاتا ہے

میری خاطر کوئی بیدار ہے، ایسا بھی نہیں

وار کرنا ہے مجھے دیکھ کے موقع اشعر

ساتھ والے سے مجھے پیار ہے، ایسا بھی نہیں


سعید اشعر

No comments:

Post a Comment