ہر آنکھ میں تیرا جلوہ ہے ہر دل میں سرور و مستی ہے
بس قابلِ سجدہ میرے لیے سرکار تمہاری ہستی ہے
ہر ناز پہ مٹتے جاتے ہیں انداز پہ مٹتے جاتے ہیں
اے شمع تِرے پروانوں کی یہ جان بھی کتنی سستی ہے
جس سمت گزرتے جاتے ہیں ہر گام پہ کعبے بنتے ہیں
ساقی کے نرالے مستوں میں کچھ ایسی نرالی مستی ہے
مے خانے کے دیوار و در پر مستی منڈلاتی پھرتی ہے
ہر مست کی آنکھوں سے دیکھو کوثر کی شراب برستی ہے
اس عشق کے کوچے میں ہم نے ہر گام پہ لکھا دیکھا ہے
جو عشق کے بندے ہیں ان کی دنیا سے نرالی بستی ہے
جس جا پہ امیرِ صابری کی جھکتی ہے جبین شوق وہیں
سب عرش کے رہنے والوں کی سجدوں کو جبیں ترستی ہے
امیر بخش صابری
No comments:
Post a Comment