پھل پھول لگاتا ہے کہ اب آگ لگا دے
کس پیڑ کو معلوم ہیں موسم کے ارادے
دامنِ خوشبو پہ کیا کیا داغِ رسوائی نہیں
اب تو کوئی شاخ پھولوں کی تمنائی نہیں
کیسی کیسی پُرسشیں انور رُلاتی ہیں مجھے
کھیتوں سے کیا کہوں میں اَبر کیوں برسا نہیں
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
تیرہ بختی کا ہماری کوئی دارو لکھے
کون اس لوحِ سیہ رنگ پہ جگنو لکھے
اتنے پُر ہول بھلا خواب کہاں ہوتے ہیں
جاگتی آنکھوں نے کیا کیا نہیں منظر دیکھے
جہاں اک بانسر ی بجتی رہی ہے
وہاں اک شہر بھی جلتا رہا ہے
انور مسعود
No comments:
Post a Comment