Monday, 17 April 2023

میں ہوں اک مزدور کی بیٹی میرا نسب غریبی ہے

 میں ہوں اک مزدور کی بیٹی


میرا نسب غریبی ہے

کتنی گرم دوپہروں میں بھی

اپنے باپ اور بھائی کے سنگ

اپنی بہن اور ماں کے ساتھ

سارا دن اس سڑک کنارے

پتھر کوٹتی رہتی ہوں

اک اک پتھر کی سختی میں

اپنے خواب کچلتی ہوں

میرے چہرے میرے بدن پر

دھوپ کی سرخی چمک رہی ہے

میرے اشکوں کا سب پانی

میرے پسینے کی بوندوں میں

قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے

جیسے کوئی سسک رہا ہے

صبح سویرے ننھے بچے

اُجلے اُجلے کپڑے پہنے

اپنے مکتب کو جاتے ہیں

پھر کیوں میں اور میرا بھائی

پتھر کوٹنے آ جاتے ہیں

ہر شب کو آکاش کے نیچے

میری آنکھیں دیکھ کے تارے

بھولے خواب جگا لیتی ہیں

جن کو میں از حد مشکل سے

پتھر کے اک ڈھیر کے نیچے

کہیں دبا کے رکھ آئی تھی

پھر وہ سارے زخمی زخمی

خواب اُبھر کر آ جاتے ہیں

اور میں من میں اٹھنے والے

بے ترتیب سوالوں کو

اِک ترتیب میں لاتی ہوں

پھر یہ سوچ کے کانپ اٹھتی ہوں

کس کو بتاؤں، کس سے پوچھوں

میرے بابا میری اماں

میری بہن اور میرا بھائی

دن بھر پتھر کوٹنے والے

دن بھر کی سختی سے ہارے

اپنے اپنے بستر پر یوں

بے سُدھ ہو کے سو بھی چکے ہیں

گم سم ہیں سب چاند اور تارے

کون سنے گا میری باتیں

اپنے آپ سے گویا ہو کر

میں بس اتنا پوچھتی ہوں کہ

سکولوں کو جانے والی

راہیں کس کو ملتی ہیں

قلم کتاب اٹھانے والے

ہاتھ میں پتھر کیوں ہوتے ہیں

علم کا تاج سجانے والے

سر پہ بوجھ اُٹھاتے کیوں ہیں

جن کے بھاگ نہ ہوں تعبیریں

ان کو خواب ستاتے کیوں ہیں


شازیہ اکبر

No comments:

Post a Comment