میں ہوں اک مزدور کی بیٹی
میرا نسب غریبی ہے
کتنی گرم دوپہروں میں بھی
اپنے باپ اور بھائی کے سنگ
اپنی بہن اور ماں کے ساتھ
سارا دن اس سڑک کنارے
پتھر کوٹتی رہتی ہوں
اک اک پتھر کی سختی میں
اپنے خواب کچلتی ہوں
میرے چہرے میرے بدن پر
دھوپ کی سرخی چمک رہی ہے
میرے اشکوں کا سب پانی
میرے پسینے کی بوندوں میں
قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے
جیسے کوئی سسک رہا ہے
صبح سویرے ننھے بچے
اُجلے اُجلے کپڑے پہنے
اپنے مکتب کو جاتے ہیں
پھر کیوں میں اور میرا بھائی
پتھر کوٹنے آ جاتے ہیں
ہر شب کو آکاش کے نیچے
میری آنکھیں دیکھ کے تارے
بھولے خواب جگا لیتی ہیں
جن کو میں از حد مشکل سے
پتھر کے اک ڈھیر کے نیچے
کہیں دبا کے رکھ آئی تھی
پھر وہ سارے زخمی زخمی
خواب اُبھر کر آ جاتے ہیں
اور میں من میں اٹھنے والے
بے ترتیب سوالوں کو
اِک ترتیب میں لاتی ہوں
پھر یہ سوچ کے کانپ اٹھتی ہوں
کس کو بتاؤں، کس سے پوچھوں
میرے بابا میری اماں
میری بہن اور میرا بھائی
دن بھر پتھر کوٹنے والے
دن بھر کی سختی سے ہارے
اپنے اپنے بستر پر یوں
بے سُدھ ہو کے سو بھی چکے ہیں
گم سم ہیں سب چاند اور تارے
کون سنے گا میری باتیں
اپنے آپ سے گویا ہو کر
میں بس اتنا پوچھتی ہوں کہ
سکولوں کو جانے والی
راہیں کس کو ملتی ہیں
قلم کتاب اٹھانے والے
ہاتھ میں پتھر کیوں ہوتے ہیں
علم کا تاج سجانے والے
سر پہ بوجھ اُٹھاتے کیوں ہیں
جن کے بھاگ نہ ہوں تعبیریں
ان کو خواب ستاتے کیوں ہیں
شازیہ اکبر
No comments:
Post a Comment