یہ مکیں کیا یہ مکاں سب لامکاں کا کھیل ہے
اک فسوں ہے یہ جہاں سب آسماں کا کھیل ہے
مدتوں کے بعد کوئی ہم سے یہ کہہ کر ملا
کچھ نہیں یہ ہجر بس آہ و فغاں کا کھیل ہے
آج سوکھے پھول جب ہم کو کتابوں میں ملے
سوچنے پر یاد آیا باغباں کا کھیل ہے
ایک مجنوں سے سرِ بازار جب پوچھا گیا
عشق کیا ہے تو کہا دونوں جہاں کا کھیل ہے
سحلوں پر دیکھتے ہیں جب تڑپتی مچھلیاں
اک صدا آتی ہے یہ موج رواں کا کھیل ہے
گر سحر اس کو منانا ہے تو محو رقص چل
سن رہے ہیں آج رقص دلبراں کا کھیل ہے
شجاعت سحر جمالی
No comments:
Post a Comment