خالی چھاگل
جانے کیا سوچ کے اس نے
محفل میں بیٹھے اک بوڑھے کی چٹکی لی
"بابا جی کوئی حکمت کی بات بتائیں"
اپنی دھندلی آنکھوں سے
بابا جی نے اس کی جانب دیکھا
حکمت کیسی
عادت پوری کرتا ہوں
جب بھی کوئی سائل تم سے پیسہ مانگے
بے شک دولت کے انبار لگے ہوں
چاہو تو انکار کرو
لیکن دروازے پر آ کے
جب کوئی کھانا مانگے
اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دینا
چاہے تم دو دن کے بھوکے ہو
اور تمہارے حصے میں آدھی روٹی آئی ہو
وہی آدھی روٹی اس کو دے دو
میں نے دیکھا
ساحل پر
کئی پرندے مردہ تھے
دریا کے پانی میں زہر ملا تھا
میری چھاگل خالی تھی
سعید اشعر
No comments:
Post a Comment