اگرچہ بات ہمیشہ زمیں کی کرتا ہے
مگر یقین فقط آسماں میں رکھتا ہے
ہر ایک سمت، ہر اک رُخ پہ راج ہے اس کا
ہوائیں بند کفِ بادباں میں رکھتا ہے
نگاہ جس پہ ذرا مہربان ہو جائے
تمام عمر اسے امتحاں میں رکھتا ہے
یہ کارواں کبھی منزل پہ کیوں نہیں جاتا
وہ کون ہے جو ہمیں درمیاں میں رکھتا ہے
انعام الحق جاوید
No comments:
Post a Comment