Saturday 15 April 2023

سیل گریہ تھا رواں درد جب اشک بنا

 سیلِ گریہ تھا رواں درد جب اشک بنا

تم تو خاموش تھے ناں درد جب اشک بنا

آہ بھرتے ہی رہے یاد کرتے ہی رہے

عشق میں سود و زیاں درد جب اشک بنا

تیری الفت نے صنم آگ لگا رکھی ہے

دل سے اٹھتا ہے دھواں درد جب اشک بنا

سی لیے ہونٹ اپنے رسوائی کے ڈر سے مگر

چیخ اٹھی میری زباں درد جب اشک بنا

نامراد عشق تو گھر بار پھونک دیتا ہے

کیسی اب یہ آہ و فغاں درد جب اشک بنا

خاک میں خاک ہوا سارا بدن مٹی کا

جل گئے جسم اور جاں درد جب اشک بنا

میں کہ سہہ پایا ہوں اذیتیں آسانی سے

تِری طرف تھا یہ دھیان درد جب اشک بنا

ماں کی شفقت خلیل ساتھ ساتھ تھی اپنے

ہم کو معلوم ہی کہاں درد جب اشک بنا


خلیل احمد

No comments:

Post a Comment