کیوں کریں ہم آشکار غم جو اپنے دل میں ہے
ہے مگر یہ سچ ہمارا دل بڑی مشکل میں ہے
چل رہا ہے راستے میں کارواں کے ساتھ وہ
دل مگر اس کا مسلسل دورئ منزل میں ہے
ایک دن لہریں بھی اس کو ساتھ اپنے لے گئیں
کہہ رہا تھا جو کہ اکثر عافیت ساحل میں ہے
زخم کاری دے کے قاتل خوش تو ہے بیشک مگر
دیکھ لے وہ بھی ذرا کہ کتنا دم بسمل میں ہے
میں اگر پوچھوں تو مجھ کو آپ بتلائیں گے کیا
ذکر میرا ہر گھڑی کیوں آپ کی محفل میں ہے
پھیر لی ہم نے نگاہِ مہر اپنی جس گھڑی
حسن کا جلوہ کہاں اب اس مہِ کامل میں ہے
آج مقتل میں کھڑے ہیں سر لیے ہم شان سے
دیکھنا ہے حوصلہ کتنا دلِ قاتل میں ہے
عزم ہو گر جستجو میں پھر کہاں مشکل ہے کچھ
ڈھونڈ ہی لیں گے اسے جو پردۂ محمل میں ہے
اے عظیم اب تو سمجھ اس زندگی کے رمز کو
عمرِ لاحاصل کا حاصل سعئ لاحاصل میں ہے
عظیم انصاری
No comments:
Post a Comment