Saturday, 15 April 2023

اب مجھے کسی عادت کی ضرورت ہی نہیں

عادت

اُسے کہو

جو وقت تلخ تھا

گزار آیا ہوں

جب ضرورت تھی ہمرکابی کی

وہ وقت ٹل بھی گیا

جب دو لفظ اس کی تسلی کے تھے درکار مجھے

اُن مراحل و اوقات سے گزر آیا ہوں

ایک عادت کی طرح خود اپنے پے تھا مسلط جو کیا

اب اس شخص کی عادت سے نکل آیا ہوں

اب اُس کی ضرورت تو بڑی دور کی بات

اب اُس عادت سے دامن کو چھڑا لایا ہوں

اب مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں

بلکہ ذرا غور سے دیکھوں

تو میں خود اپنی ضرورت سے نکل آیا ہوں

اب مجھے کسی عادت کی ضرورت ہی نہیں

میں اُس سے اور اس کی عادت سے نکل آیا ہوں


عاطف محتشم خان 

No comments:

Post a Comment