Saturday, 15 April 2023

خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے

 خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے

یوں در بدر ہوئے کہ زمیں کے نہیں رہے

رشتے رفاقتوں کے رقابت میں ڈھل گئے

دیوار و در بھی اپنے مکیں کے نہیں رہے

ہجرت زدہ لباس میں پھرتے ہیں دربدر

رہنا تھا جس نگر میں وہیں کے نہیں رہے

یہ کوزہ گر یہ چاک یہ مٹی یہ آگ سب

زعمِ ہنر میں دیکھ کہیں کے نہیں رہے

خوابوں کے زخم آنکھ سے رسنے لگے غزل

یہ دردِ جاں بھی قلبِ حزیں کے نہیں رہے


ذکیہ غزل

No comments:

Post a Comment