خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے
یوں در بدر ہوئے کہ زمیں کے نہیں رہے
رشتے رفاقتوں کے رقابت میں ڈھل گئے
دیوار و در بھی اپنے مکیں کے نہیں رہے
ہجرت زدہ لباس میں پھرتے ہیں دربدر
رہنا تھا جس نگر میں وہیں کے نہیں رہے
یہ کوزہ گر یہ چاک یہ مٹی یہ آگ سب
زعمِ ہنر میں دیکھ کہیں کے نہیں رہے
خوابوں کے زخم آنکھ سے رسنے لگے غزل
یہ دردِ جاں بھی قلبِ حزیں کے نہیں رہے
ذکیہ غزل
No comments:
Post a Comment