سنبھل اے دل کسى کا راز بے پردہ نہ ہو جائے
یہ دیوانوں کی محفل ہے کوئی رُسوا نہ ہو جائے
دکھا دوں میں زمانے کو تماشہ اپنی وحشت کا
مگر ہے بات اتنی سی کہ تو رُسوا نہ ہو جائے
وہ شاید اس لیے آتے نہیں گورِ غریباں پر
کَہیں ٹھوکر نہ لگ جائے کوئی زندہ نہ ہو جائے
تم اپنی دِید کا اے جانِ من! اعلان تو کر دو
جو ہونا ہے ہو جائے یونہی چرچا نہ ہو جائے
نمازِ عشق کا سجدہ ادا کرنا قیامت ہے
یہ ڈر ہے غیر کے آگے کہیں سجدہ نہ ہو جائے
میری بے تابئ دل بڑھ گئی حد سے ہے ڈر اب تو
تڑپ کر دل نکل آئے کہیں ایسا نہ ہو جائے
امیرِ صابرى جانا سنبھل کر کوئے جاناں میں
محبت اک امانت ہے الم نشرح نہ ہو جائے
امیر بخش صابری
No comments:
Post a Comment