Wednesday, 19 April 2023

عرفان کا غرور وہیں پاش پاش ہو

 عرفان کا غرور وہیں پاش، پاش ہو

وجدان کے اشارے پہ گر بود و باش ہو

شوقِ وصالِ یار میں کھو جائے زندگی

صدیوں پہ اک محیط ملاقات کاش ہو

یا مجھ کو فکرِ یار سے آزادی بخش دے

یا مجھ پہ میری ذات کا ہر راز فاش ہو

ایسے کوئی خیال کی دنیا سے کھو گیا

جیسے الگ وجود سے الفت کی قاش ہو

ساری عوام، لوگ نہ کیسے خبیث ہوں

جس ملکِ نامراد کا حاکم عیاش ہو

زندہ دکھائی دے گا مگر زندگی کہاں

کندھوں پہ جس کےاپنی محبت کی لاش ہو

کیسے بھلا ہو عشق مکینِ رگِ سرود

گر كنجِ عافیت کی ہی دل کو تلاش ہو

پھر امن و آشتی کے اشارے کمال ہوں

گر ساتھ چلنے والا نہیں بد قماش ہو

ایسا نہ ہو وصال کی نوبت نہ آ سکے

ایسا نہ ہو کہ ہجر تِرا دلخراش ہو


شائستہ کنول عالی

No comments:

Post a Comment