اس کو تشبیہ دیتا بھی تو کس سے میں
لفظ تھے ہی نہیں
میں نے تھک کر لغت بند کی اور پھر
دیر تک کھڑکی کھولے کھڑا
سوچتا ہی رہا
سوچتے سوچتے ذہن تک تھک گیا
اور تھک ہار کر میں نے اس سے کہا
حسن کے تاجور
باعثِ شاعری
کوئی شے تیری تشبیہ ہے ہی نہیں
اس کی تصویر کے روبرو دیر تک ہاتھ جوڑے ہوئے
اپنی کم مائیگی اور ادراک پر جملے کستا رہا
اور ندامت سے نظریں جھکائے کھڑا
اس کو پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے
رات میں دیر تک خود بھی ہنستا رہا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment