جبر کی شدت صبر مٹائے چوری ہے
بھوک جو ایسے ہاتھ بڑھائے چوری ہے
چھوٹا سا معصوم پرندہ کیا جانے
دانہ اپنے نام کا کھائے چوری ہے
بھوک نہ دیکھے جوٹھے بھات کو سنتے تھے
اب یہ منظر سامنے آئے چوری ہے
قاضی تجھ سے پوچھ رہی ہوں بتلا دے
چُوری چوری پہ اُکسائے چوری ہے
یہ ننھے معصوم فرشتے سہمے ہیں
اپنے آنسو جو پی جائے چوری ہے
روزے دار نہیں ہیں پھر بھی روزہ ہو
بچا کُچھا جو گھر میں لائے چوری ہے
چور سمجھ کر بچہ مار نہ ڈالیں سب
صائمہ ان کو کون بتائے چوری ہے
صائمہ کامران
No comments:
Post a Comment