عمر ڈھل رہی ہے
رُت بدل رہی ہے
میرے وجود کی ہر شاخ پر
گرد سے اٹے ہوئے
وقت کی پھوار سے
سارے پتے دُھل رہے ہیں
ٹہنیوں کے جھاڑ میں پنچھی
اپنا گھونسلہ بن رہے ہیں
وہ پھول مُرجھائے ہوئے
دلنشیں نسیم سے
رفتہ رفتہ جھڑ رہے ہیں
نئے شگوفے، کھلے جو تھے
پھل بن کے پک رہے ہیں
اک پُر وقار انداز میں
اب یہ کندھے جھک رہے ہیں
آنے والی یہ خزاں
کتنی پُر بہار ہے
اک پُر سکوں احساس ہے
کہ خواب رستہ بدل رہے ہیں
ثمین بلوچ
No comments:
Post a Comment