قرب
اسے بھی یاد تو ہوں گے وہ دن وہ ماہ و سال
کہ جب دھڑکتا ہی رہتا تھا دل میں شوقِ وصال
وہ گفتگو کے لیے ڈھونڈنا کہیں موضوع
وہ اس کو پاس بٹھانے میں لاکھ قیل و قال
وہ ایک آہٹِ مانوس کی طلب میں ہمیں
کہاں کہاں پہ لیے گھومتی تھی چشمِ خیال
وہ اس کا قُرب کہ سو دوریوں کا رُوپ لیے
وہ اک دُوری کہ وجہِ ہزار رنج و ملال
وہ روز شہر کی گلیوں میں گھومنا اپنا
کہ پاس سے کبھی گزرے تو ہو گا حال احوال
اسے بھی میرے حوالوں سے تھی شناسائی
فراق لمحے تھے اس کے لیے بھی ماہ و سال
وہ رتجگوں سے اسے بھی تھی دوستی ایسی
کہ نیند اس کے لیے بھی تھی ایک خواب و خیال
بس ایک قُرب میں بس کچھ پگھل گیا آخر
وہ شخص عام سے لوگوں میں ڈھل گیا آخر
اوریا مقبول جان
No comments:
Post a Comment