جو بائیں ہاتھ کی انگلی میں اک انگوٹھی ہے
ہمارے سر پہ قیامت کے جیسے ٹوٹی ہے
دِلا! دِلا! اے مِرے خوش گمان ہوتے دِلا
تجھے کہا تھا وہ دنیا ہے اور جھوٹی ہے
تمام رات مجھے جاگنا پڑے گا اب
تِرے خیال کی آہٹ سے نیند ٹوٹی ہے
اک آفتاب کی جانب نگہ چلی گئی تھی
وہ روشنی تھی کہ شدت سے آنکھ پھوٹی ہے
کسی نے وقت پہ زنجیر ہی نہیں کھینچی
بدن گھسیٹ کے لانے میں ریل چھوٹی ہے
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment