Saturday 15 April 2023

جو بائیں ہاتھ کی انگلی میں اک انگوٹھی ہے

 جو بائیں ہاتھ کی انگلی میں اک انگوٹھی ہے

ہمارے سر پہ قیامت کے جیسے ٹوٹی ہے

دِلا! دِلا! اے مِرے خوش گمان ہوتے دِلا

تجھے کہا تھا وہ دنیا ہے اور جھوٹی ہے

تمام رات مجھے جاگنا پڑے گا اب

تِرے خیال کی آہٹ سے نیند ٹوٹی ہے

اک آفتاب کی جانب نگہ چلی گئی تھی

وہ روشنی تھی کہ شدت سے آنکھ پھوٹی ہے

کسی نے وقت پہ زنجیر ہی نہیں کھینچی

بدن گھسیٹ کے لانے میں ریل چھوٹی ہے


آزاد حسین آزاد

No comments:

Post a Comment