نئے انداز سے وہ ہر ستم ایجاد کرتے ہیں
بظاہر داد ہوتی ہے، مگر بیداد کرتے ہیں
نظر کے سامنے جان نظر جب تم نہیں ہوتے
تمہاری یاد سے ہم بزمِ دل آباد کرتے ہیں
چمن والوں کی جان و دل پہ وہ گزری بہاروں میں
چمن والے بہاروں میں خزاں کو یاد کرتے ہیں
زمیں ہی کیا لرز جاتا ہے خود صیاد کا دل بھی
تڑپ کر جب اسیرانِ قفس فریاد کرتے ہیں
رضا ہم آبلہ پا اس طرح گزرے ہیں کانٹوں سے
کہ وہ اکثر محبت سے ہمیں کو یاد کرتے ہیں
رضا امروہوی
No comments:
Post a Comment