اب اس لیے بھی دشت میں آتا نہیں کوئی
ٹوٹے دلوں کا سوگ مناتا نہیں کوئی
ہر دن تِری گلی کا پتہ پوچھتا ہوں میں
ہر دن میں پوچھتا ہوں بتاتا نہیں کوئی
دل بھی شکستہ قبر پہ رکھے دِیے سا ہے
اک بار بُجھ گیا تو جلاتا نہیں کوئی
ڈر ہے انہیں کہیں میں تماشہ بنا نہ دوں
میرا وجود ڈھونڈ کے لاتا نہیں کوئی
قبلہ بدل کے اس کی طرف چل پڑا ہوں میں
اندھے کو راستہ بھی دکھاتا نہیں کوئی
ہر ایک رمز آپ کی آنکھوں میں قید ہے
اتنا سمندروں میں سماتا نہیں کوئی
داؤد سید
No comments:
Post a Comment