کھیت پیاسا ہے تو بادل کو بلایا جائے
ابر اُمڈے تو کوئی خواب اگایا جائے
وہ کوئی راز ہے ایسا جو چھپایا جائے
وہ تو اک خواب ہے من میں جو سمایا جائے
رات سوتی ہے تو سانسیں نہیں روکی جاتیں
آنکھ اندھی ہو تو سورج نہ بجھایا جائے
ہر نئی چال خطا ہونے پہ وہ پھر سوچے
میرے رستے میں نیا جال بچھایا جائے
گر کوئی عشق کی منزل کیلئے گھر سے چلے
کیسے ممکن ہے کہ اس کو نہ ستایا جائے؟
ہر طرف گھور اندھیروں کا ہے ڈیرہ راشد
تم پہ لازم ہے کہ دل اپنا جلایا جائے
راشد ڈوگر
No comments:
Post a Comment